دو ماوں کی ایک جان

 عین شاہ

20 اگست 2021


دو ماوں کی ایک جان۔

کہتے ہیں زمین ہماری ماں ہوتی ہے اور ماں کی خدمت کے لیے جان بھی قربان کرتی ہے اولاد۔

ایک ماں جو ہمیں جنم دیتی ہے۔

اور دوسری ماں ہماری زمین ہمارا ملک پاکستان۔۔۔

ہماری جنم ماں ہمیں پیدا کرتی ہے 

پرورش کرتی ہے تربیت کرتی ہے ہمیں معاشرے میں چلنے کے کیے ایک قابل انسان بناتی ہے۔۔

اور تیاری کے اسی پراسس میں وہ اپنی زمہ داریاں بھلا کہاں بھولتی ہے کہ اسنے ہمیں تیار کرنا ہے آپنی دوسری ماں

ہمارا ملک پیارا پاکستان کے لیے بھی تیار کرنا ہے۔۔۔

وہ اپنا فرض نہیں بھولتی۔۔

وہ اپنا دل نکال کے حاضر کر دیتی ہے۔۔۔

یہ نہیں کہ غم سے

دکھ سے۔۔۔

اپنا فرض خوشی سے ادا کرتی ہے۔۔۔

یہاں بات ہو رہی ہے

ہمارے پاکستان کے جواں سپوت 

جنہوں نے وطن عزیز کے لیے جان قربان کی

 پاک فضائیہ کے پائلٹ

 جناب راشد منہاس شہید

 جنکا آج 50 واں یوم شہادت ہے۔

راشد منہاس کراچی میں پیدا ہوئے

1968 میں سینٹ پیٹرک سکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ 

 فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔

یہاں تک تو تھا پہلی ماں کا فرض جو اسنے ادا کیا

اب باری آی ملک عزیز کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کی ایک ماں کی ایک بیٹے کی۔۔۔

20 اگست 1971ء کو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔ 

وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے

 کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان

 

 خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا

 اور طیارے کا رخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔

 راشد منہاس نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انھیں ہدایت کی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغوا ہونے سے بچایا جائے۔

 اگلے پانچ منٹ راشد اور غدار انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کے کنٹرول کے حصول کی کشمکش میں گزرے

 مطیع الرحمان نے راشد منہاس سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی پوری کوشش کی۔

 لیکن راشد منہاس نے اس کو ناکام بنا دیا۔

 مطیع الرحمان کی تجربہ کاری کی بنا پر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ پر لینڈ کرانا ممکن نہیں تو انھوں نے آخری حربے کے طور پر جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا۔

 اور طیارہ زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔

 جس کے نتیجے میں راشد منہاس اور مطیع الرحمان دونوں وفات پا گئے۔

 لیکن ایک نے قابل رشک موت یعنی شہادت کا درجہ پایا۔

 اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا۔

 ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ کر لیا۔

 جبکہ دوسرا غدار کہلایا۔

 راشد منہاس کے اس عظیم کارنامے کے صلے میں انھیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔

اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے تو لبھدی پھرے بازار کڑے۔۔۔۔

کیا کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اسکے جگر گوشے اسکی آنکھوں کے سامنے نا رہیں؟

ہر ماں چاہتی ہے۔۔۔

پر ہماری ارض پاک کے لیے ہماری جانِ قربان ہیں۔۔۔

ہماری دوسری ماں۔۔۔

ہمارا ملک۔۔۔۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل ، جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اگے، وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز ، کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی روٴیدگی محال نہ ہو

خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہرایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال

کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کےلیے

حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل ، جسے اندیشہ زوال نہ ہو.




Post a Comment

1 Comments